شریعت اسلامیہ میں مردوعورت کے لیے ”غض بصر“ کے حکم کا تحقیقی جائزہ

 

 

از: غازی عبدالرحمن قاسمی                                  

لیکچرار گورنمنٹ ولایت حسین اسلامیہ ڈگری کالج، ملتان، پاکستان

 

اسلام پاک وصاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے جو اہم تدیبرکرتاہے، وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچاکر پاکیزہ زندگی کاقیام ہے ۔چنانچہ اسی سلسلے میں اسلام نے حفاظتِ نظر پر زور دیا ہے؛ چونکہ بدنظری تمام فواحش کی بنیاد ہے، اس لیے قران وحدیث سب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۱)

ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بیشک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔

اور اسی طرح عورتوں کو بھی غض بصر کا حکم دیاگیاہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ(۲)

ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں!

حقیقت یہ ہے کہ ”بدنظری“ہی ”بدکاری“ کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو”حفاظتِ فرج“ کے حکم پر مقدم رکھا گیا ہے۔شریعتِ اسلامیہ نے ”بدنظری” سے منع کیا او ر اس کافائدہ یہ بتایا کہ اس سے شہوت کی جگہوں کی حفاظت ہوگی نیز یہ چیز تزکیہٴ قلوب میں بھی معاون ہوگی ۔ ”غضِ بصر“ کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیاہے ۔نگاہ نیچی رکھنا فطرت اور حکمتِ الٰہی کے تقاضے کے مطابق ہے؛اس لیے کہ عورتوں کی محبت اوردل میں ان کی طرف خواہش فطرت کا تقاضاہے ۔

ارشاد ربانی ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَاءِ(۳)

”لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں“۔

آنکھوں کی آزادی اوربے باکی خواہشات میں انتشار پیدا کرتی ہے ۔ایک حدیث میں بدنظری کو آنکھو ں کا زنا قرار دیا گیا ۔ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ(۴) ”آنکھوں کازنا دیکھناہے“۔

راستے میں مجلس جماکر بیٹھنے سے اسی وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ وہ عام گزر گاہ ہے ،ہرطرح کے آدمی گزرتے ہیں، نظر بے باک ہوتی ہے ،ایسا نہ ہو کہ کسی پر نظر پڑے اور وہ برائی کا باعث بن جائے ۔

صحابہ کرام سے ایک دفعہ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو!صحابہ نے اپنی مجبوری پیش کی، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راستہ کا حق ادا کرو!صحابہ نے سوال کیا راستہ کا حق کیاہے“۔؟

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذَی وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّھْیُ عَنْ الْمُنْکَرِ(۵)

” نگاہ نیچی رکھنا ،اذیت کا ردکرنا ،سلام کا جواب دینا ،اور بھلی بات کاحکم دینا اور بری بات سے منع کرنا“۔

حدیث میں نظر کو شیطانی زہر آلود تیر قرار دیا گیاہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

النَّظْرَةُ سَھْمٌ مَسْمُومٌ مِنْ سِھَامِ إبْلِیسَ مَنْ تَرَکَھَا مِنْ مَخَافَتِی أَبْدَلْتہ إیمَانًا یَجِدُ حَلَاوَتَہُ فِی قَلْبِہِ(۶)

”بدنظری شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک زہریلا تیرہے، جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے، میں اس کو ایک ایسی ایمانی قوت دوں گا، جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا“۔

نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں کا بنیادی سبب ہے ۔چونکہ دل میں تمام قسم کے خیالات و تصورات اور اچھے بُرے جذبات کا برا نگیختہ و محرک ہونا، اسی کے تابع ہے؛اس لیے اسلام میں نگاہوں کو نیچا رکھنااور ان کی حفاظت کرنابڑی اہمیت کا حامل ہے ۔

بدنظری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے حسرت وافسوس اور رنج وغم کی کیفیت ہوجاتی ہے ۔کئی دفعہ نظر کا تیر دیکھنے والے کو خود ہی لگ کر اس کے دل ودماغ کو زخمی کردیتاہے ۔

حافظ ابن قیم (م۷۵۱ھ)لکھتے ہیں:

کُلُّ الْحَوَادِثِ مَبْدَاُھَا مِنَ النَّظَرِ         $       وَمُعْظَمُ النَّارِ مِنْ مُسْتَصْغَرِ الشَّرَرِ

کَمْ نَظْرَةٍ بَلَغَتْ فِی قَلْبِ صَاحِبِھَا       $       کَمَبْلَغِ السَّھْمِ بَیْنَ الْقَوْسِ وَالْوَتَرِ

یَسُرُّ مُقْلَتَہُ مَا ضَرَّ مُھْجَتَہُ              $       لَا مَرْحَبًا بِسُرُورٍ عَادَ بِالضَّرَرِ

یَا رَامِیًا بِسِھَامِ اللَّحْظِ مُجْتَھِدًا           $       أَنْتَ الْقَتِیلُ بِمَا تَرْمِی فَلَا تُصِبِ

یَا بَاعِثَ الطَّرْفِ یَرْتَادُ الشِّفَاءَ لَہُ       $       اِحْبِسْ رَسُولَکَ لَا یَأْتِیکَ بِالْعَطَبِ(۷)

ترجمہ: تمام حادثات کی ابتدا نظر سے ہوتی ہے، اور بڑی آگ چھوٹی چنگاریوں سے ہوتی ہے، کتنی ہی نظریں ہیں جو نظر والے کے دل میں چبھ جاتی ہیں، جیساکہ کمان اور تانت کے درمیان تیر ہوتا ہے، اس کی آنکھ ایسی چیز سے خوش ہورہی ہے جو اس کی روح کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسی خوشی جو ضرر کو لائے، اس کے لیے خوش آمدید نہیں ہے۔ اے نظر کا تیر چلانے میں کوشش کرنے والے! اپنے چلائے ہوئے تیر سے توہی قتل ہوگا! اے نظر باز! تو جس نظر سے شفا کا متلاشی ہے، اپنے قاصد کو روک! کہیں یہ تجھ ہی کو ہلاک نہ کردے۔

یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ نگاہ کا غلط استعمال انسان کے لیے نقصان دہ ہے ۔اسی لیے شریعت نے عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے ”غضِ بصر“کاحکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں دونوں کو ”غضِ بصر“کاحکم دیا گیا؛مگر جمہور فقہا ء نے اس حکم میں مرد وعورت کے درمیان فرق کیاہے ۔پہلے مردوں کے لیے غض بصر کے حکم میں اہل علم کا موقف ذکر کرکے پھر عورتوں کے لیے اس حکم کاتفصیلی جائزہ پیش کیا جاتاہے ۔

مردوں کے لیے غضِ بصر کا حکم :

(۱) اس پر اجماع ہے کہ مردکے لیے دوسرے مردکے ستر کے علاوہ پورے جسم کی طرف نظر کرناجائز ہے۔(۸)

(۲) اس پر بھی اہل علم کا اجماع ہے کہ بے ریش لڑکے کو لذت اور اس کی خوبصورتی سے متمتع ہونے کے ارادہ سے دیکھنا حرام ہے ۔(۹)

مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے کی تین صورتیں ہیں:

(۱) مرد کا اپنی بیوی کو دیکھنا جائز ہے۔

(۲)مرداپنی ذی محرم عورتوں کے مواضع زینت کو دیکھ سکتاہے اورحنفیہ کے نزدیک مواضعِ زینت میں ،سر ،چہرہ ،کان ،گلا،سینہ،بازو،کلائی، پنڈلی،ہتھیلی اورپاؤں شامل ہے ۔(۱۰)

(۳)مرد کااجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنا، اس میں تفصیل ہے:

$  اگر مرد کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو اُس کے لیے اس عورت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے ۔

امام کاسانی  (م۵۸۷ھ)لکھتے ہیں:

وکذا إذا أراد أن یتزوج امرأة فلا بأس أن ینظر إلی وجہہا(۱۱)

”اور اسی طر ح جو شخص کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھے “؛ بلکہ ایسی عورت کے چہرہ کی طرف نظرکرنے میں جمہور فقہاء کااتفاق ہے ۔

امام نووی (م۶۷۶ھ)مخطوبہ کی طرف جواز نظر والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وفیہ استحباب النظر إلی وجہ من یرید تزوجھا وھو مذھبنا ومذھب مالک وأبی حنیفة وسائر الکوفیین وأحمد وجماھیر العلماء(۱۲)

”اوراس حدیث میں اس عورت کے چہرے کی طرف نظرکرنا اس شخص کے لیے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اور یہی ہمارا مذہب ہے اور مالک،ابو حنیفہ، تمام اہلِ کوفہ اوراحمد سمیت جمہور علماء کا ہے ۔

$  طبیب بغرضِ علاج اجنبیہ کو دیکھ سکتاہے ۔

امام رازی (م۶۰۶ھ)لکھتے ہیں:   

یجوز للطبیب الأمین أن ینظر إلیھا للمعالجة(۱۳)

”شریف الطبع طبیب کے لیے عورت کی طرف بغرضِ علاج نظر کرنا جائز ہے “۔

$  گواہ عورت کے خلاف گواہی دیتے وقت اور قاضی عورت کے خلاف فیصلہ کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ سکتاہے ۔

علامہ حصکفی(م۱۰۸۸ھ)لکھتے ہیں :

فإن خاف الشھوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا ․․․․․․․․ إلا النظر لحاجة کقاض وشاھد یحکم ویشھد علیھا(۱۴)

”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے؛ البتہ ضرورت کے وقت ،دیکھنا جائز ہے، مثلا قاضی کا فیصلہ سناتے یا گواہ کا گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔

$  ہنگامی حالات میں، مثلا کوئی عورت پانی میں ڈوب رہی ہے یا آگ میں جل رہی ہے تو اس کی جان بچان کے لیے اس کی طرف دیکھا جاسکتاہے۔

امام رازی لکھتے ہیں :

لو وقعت فی غرق أو حرق فلہ أن ینظر إلی بدنھا لیخلصھا(۱۵)

”اگر عورت پانی میں ڈوب رہی ہو یا آگ میں جل رہی ہو تو اس کی جان بچانے کے لیے اس کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہے“ ۔

اور اسی کے ساتھ لاحق کرتے ہوئے مزید یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ زلزلہ وسیلاب ،چھتوں کا گرجانا ،آسمانی بجلی کا گرنا ،چوری ڈکیتی کے وقت بھی افراتفری کے عالم میں یہی حکم ہوگا ۔

$  معاملہ کرتے وقت یعنی ،اشیاء کے لینے و دینے اور خریدوفروخت کے وقت بھی عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے ۔

امام کاسانی لکھتے ہیں :

لأن إباحة النظر إلی وجہ الأجنبیة وکفیھا للحاجة إلی کشفھا فی الأخذ والعطاء(۱۶)

”اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کی طرف نظر کرنا جائز ہے“۔

امام نووی لکھتے ہیں :

جواز النظر للحاجة عند البیع والشراء(۱۷)

”خرید وفروخت کی ضرورت کے وقت عورت کی طرف نظر کرنا جائز ہے “۔

اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بائع یا مشتری معاملہ کرتے وقت اس عورت کو پہچان لے؛ تاکہ اگر کسی وجہ سے چیز واپس کرنی پڑے کسی نقصان وضرر کے وقت ، یا بعد میں قیمت وصول کرنی ہو تو دوسر ی عورتوں سے الگ شناخت کی جاسکے۔(۱۸)

جبکہ بعض اہل علم کی رائے میں خرید وفروخت کے وقت عورت کا چہرہ کھولنا یا مرد کا دیکھنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ ایسی ضرورت نہیں ہے کہ جس کے بغیر کو ئی چار ہٴ کار نہ ہو؛چونکہ عورتیں بیع وشرا نقاب وحجاب کے ساتھ بھی کرسکتی ہیں(۱۹)۔اور یہی بات عصرِ حاضر کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے؛ اس لیے کہ آج کل تو باقاعدہ خریدی ہوئی چیز کی رسید مل جاتی ہے، جس سے اس چیز کے واپس کرنے میں مزید کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے ۔مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ بغیرکسی حاجت او ر ضرور ت کے اجنبیہ کی طرف دیکھنے میں جمہور فقہاء اور حنفیہ کے درمیان اختلاف ہے ۔

حنفیہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت سے بے خوف ہونے کی صورت میں اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے؛مگر ائمہٴ ثلاثہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں بلاضرورت اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔ائمہ کے موقف کی تفصیل اور دلائل کے نقل کرنے سے پہلے ضرور ی ہے کہ فتنہ اور شہوت کا مفہوم واضح کیا جائے؛ تاکہ با ت کا سمجھنا آسان ہو۔

فتنہ کا معنی :

علامہ شامی(م۱۲۵۲ھ)لکھتے ہیں :

(قولہ بل لخوف الفتنة) أی الفجور بھا قاموس أو الشھوة(۲۰)

فتنہ سے مراد گناہ یا شہوت ہے۔

شہوت کی تعریف:

علامہ شامی لکھتے ہیں:

أنھا میل القلب مطلقا(۲۱)

”شہوت دل کے مائل ہونے کانام ہے “۔

علامہ شامی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بیان الشھوة التی ھی مناط الحرمةأن یتحرک قلبُ الإنسان ویمیلَ بطبعہ إلی اللذة(۲۲)

”شہوت کا بیان جس پر حرمت کا مدار ہے، وہ یہ کہ انسان کے دل میں حرکت پیدا ہو اور طبیعت لذت کی طرف مائل ہوجائے“ ۔

مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں کہا جاسکتاہے کہ کسی خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنے سے (خواہ وہ عورت کا ہو یا بے ریش لڑکے کا )دل کی کیفیات کا متحرک ہونا اور قلبی میلان ورجحان کے ساتھ طبیعت کا حصول لذت کی طرف مائل ہونا شہوت کہلاتاہے ۔

جمہور علماء کا تفصیلی موقف درج ذیل ہے ۔

مالکیہ کاموقف:

علامہ ابن رشد مالکی (م۵۲۰ھ)

ولا یجوز لہ أن ینظر إلی الشابة إلا لعذر من شھادة أو علاج(۲۳)

”اور مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ نوجوان عورت کی طرف نظرکرے سوائے گواہی یا علاج وغیرہ کی مجبوری حالت کے۔

قاضی امام ابن عربی مالکی (م۵۴۳ھ)لکھتے ہیں:

لا یحل للرجل ان ینظر الی المرأة(۲۴)

” آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ عورت کی طرف دیکھے“۔

شوافع کاموقف:

امام ابو اسحاق شیرازی (م۴۷۶ھ)لکھتے ہیں :

وأما من غیر حاجة فلا یجوز للأجنبی أن ینظر إلی الأجنبیة(۲۵)

”اور بہرحال بلا ضرور ت اجنبی کے لیے جائزنہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے “۔

امام غزالی (م۵۰۵ھ)لکھتے ہیں:

نظر الرجل الی المراة․․․․ وان کانت اجنبیة حرم النظرالیھا مطلقا(۲۶)

”اگر عورت اجنبیہ ہو تو اس کی طرف نظر کرنا مطلقاً حرام ہے “۔

حنابلہ کا موقف:

شیخ الاسلام ابن قدامہ (م۶۲۰ھ)لکھتے ہیں:

فأما نظر الرجل إلی الأجنبیة من غیر سبب فإنہ محرم إلی جمیعھا فی ظاھر کلام أحمد(۲۷)

”امام احمد کے ظاہری کلام کے مطابق آدمی کا اجنبیہ عورت کے پورے جسم کی طرف بلاوجہ دیکھنا حرام ہے“ ۔

جمہور فقہاء کے دلائل:

۱- آیت کریمہ:

ِقُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ(۲۸)

”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں“۔

امام شافعی (م۲۰۴ھ )اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

فرض اللہ علی العینین أن لا ینظر بھما إلی ماحرم اللہ، وأن یغضھما عما نھاہ(۲۹)

”اللہ تعالی نے آنکھوں پر فرض کیا کہ وہ نہ دیکھیں اس چیزکو جس کادیکھنا اللہ نے حرام قراردیا، اورجس کے دیکھنے سے منع کیا، وہاں آنکھوں کو جھکایاجائے“۔

۲- آیت کریمہ:

وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَاء ِ حِجَابٍ(۳۰)

”اور جب تمہیں ان (نبی کی بیویوں)سے کوئی چیز مانگنا (یا کچھ پوچھنا) ہو تو تم پردے کے پیچھے سے مانگاکرو۔

امام قرطبی (م۶۷۱ھ)لکھتے ہیں:

فی ھذہ الآیة دلیل علی أن اللہ تعالی أذن فی مسألتھن من وراء حجاب، فی حاجة تعرض، أو مسألة یستفتین فیھا، ویدخل فی ذلک جمیع النساء بالمعنی(۳۱)

”یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے ازواج مطہرات سے ضرورت پڑنے پر پردے کے پیچھے سے سوال کرنے یا مسئلہ پوچھنے کی اجازت دی ہے ۔ اور اس حکم میں تمام مسلمان عورتیں داخل ہیں“۔

معلوم ہوا مردوں کے لیے عورتوں کو دیکھنا جائز نہیں؛ اسی لیے پردے کی آڑ میں عورتوں سے سوال کرنے کا حکم دیا گیاہے ۔

۳- حضرت ابو ہریرہ کی روایت:

إنَّ اللہَ إذَا کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنْ الزِّنَا أَدْرَکَ ذَلِکَ لَا مَحَالَةَ فَالْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ، وَزِنَاھُمَا النَّظَرُ، وَالْیَدَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاھُمَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاھُمَا الْمَشْیُ؛ وَالنَّفْسُ تَمَنَّی وَتَشْتَھِی وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذَلِکَ أَوْ یُکَذِّبُہُ(۳۲)

”بے شک اللہ تعالی نے ابن آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیاہے جس کو وہ یقینا پائے گا ۔پس آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کازنا دیکھناہے اور ہاتھ زناکرتے ہیں ان کازنا پکڑناہے ۔اور پاؤں زناکرتے ہیں ان کازنا چلناہے اور نفس زنا کی تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب“ ۔

۴-نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا:

یَا عَلِیُّ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَکَ الْأُولَی وَلَیْسَتْ لَکَ الآخِرَةُ(۳۳)

”اے علی! نظر کی پیروی مت کر؛ اس لیے کہ پہلی نظر تو جائز ہے؛ مگر دوسری نگاہ جائز نہیں“۔

۵-حضرت علی کی روایت ہے:

أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم َأَرْدَفَ الْفَضْلَ فَاسْتَقْبَلَتْہُ جَارِیَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ فَلَوَی عُنُقَ الْفَضْلِ فقَالَ اَبوُہ الْعَبَّاسُ لَوَیْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّکَ قَالَ رَأَیْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنِ الشَّیْطَانَ عَلَیْھِمَا(۳۴)

”بے شک نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا آپ کو قبیلہ خثعم کی ایک لڑکی ملی،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کی گردن دوسری طرف پھیر دی ،اس پر ان کے والد عباس نے کہا: آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پھیردی؟آپ نے  صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا میں نے نوجوان مرد اور عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خوف نہیں ہوا۔

۶-حضرت جریر بن عبداللہ البجلی کہتے ہیں میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اچانک نظر پڑجائے تو کیا کروں ؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا:

أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِی(۳۵)

”میں اپنی نظر پھیرلوں“

۷- وہ احادیث جن میں نکاح سے پہلے عورت کی طرف دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔(۳۶) اگر عورتوں کی طرف نظر کرنا مطلقاً مباح ہوتا تو پھر نکاح کے ارادہ کے ساتھ دیکھنے کی تخصیص کیوں کی گئی؟(۳۷)

یہ تمام دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اجنبیہ عورت کی طرف بلاضرورت دیکھنا ناجائز ہے؛چنانچہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مردوں کے لیے غض بصر کاحکم لازمی ہے ۔اوراستثنائی صورتوں کے علاوہ اجنبیہ عورت کے چہرے کی طرف دیکھنامطلقاً حرام ہے۔فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔

امام غزالی لکھتے ہیں:

ومنھم من جوز النظر الی الوجہ حیث تومن الفتنة․․․․․ وھو بعید لان الشھوة وخوف الفتنة امر باطن فالضبط بالأنوثة التی ھی من الاسباب الظاھرة أقرب الی المصلحة(۳۸)

”بعض حضرات نے فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں عورت کا چہرہ دیکھنے کو جائز قرار دیاہے اور وہ بعید ہے؛اس لیے کہ شہوت اور فتنہ کا خوف باطنی معاملہ ہے، لہٰذا موٴنث کے ساتھ حکم کو منضبط کرنا یہ اسباب ظاہرہ میں سے ہے اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے“۔

اما م غزالی کی مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر عورت کی طرف نظر کرنے کو فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں جائز قرار دیاجائے تو ایسا ممکن نہیں ہے؛اس لیے کہ شہوت اورفتنہ کے خوف کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں؛ بلکہ باطن سے ہے اور کسی کے باطن میں کیا ہے؟کو ئی دوسرا فرد نہیں جانتا؛چنانچہ فتنہ کے خوف کو ضابطہ بنانے کے بجائے اگر یہ ضابطہ بنا یا جائے کہ عورت کی طرف بلاوجہ نظرکرناہی جائز نہیں، یہ اسباب ظاہرہ اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے ۔

مفتی محمد شفیع دیوبندی احکام القرآن للتھانوی میں لکھتے ہیں :

”اور اجنبیہ عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف نظر کرنا،مالکیہ ،شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک حرام ہے ۔خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔اور ان حضرات کا خیال ہے کہ خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنا فتنہ کو لازم کرتاہے اور عام طور پر دل میں میلان پیدا ہوجاتاہے ۔ لہٰذا،اجنبیہ کی طرف نظر کرنا ،خود فتنہ کے قائم مقام ہے ۔جس طرح کہ نیند کو خروج ریح کے احتمال کی وجہ سے اس کے قائم مقام کردیا گیاہے ۔اور محض سونے سے وضو کے ٹوٹنے کاحکم لگادیا جاتاہے خواہ ریح کا خرو ج ہو یا نہ ہو ،اور اسی طرح خلوت صحیحہ عورت کے ساتھ وطی کے قائم مقام ہے تمام احکام میں(۳۹) عام ازیں کہ اس خلوت میں وطی پائی گئی ہو یا نہ پائی گئی ہو“ (۴۰)۔

معلوم ہوکہ ا ئمہ ثلاثہ کے نزدیک مرد کے لیے عورت کے چہرے کی طرف بلاضرورت نظر کرنا جائز نہیں، اور اس کی وجہ یہ ذکر کی گئی ہے کہ اکثر حالات میں خوبصورت عورت کا چہرہ دیکھ کر انسان اس کی طرف مائل ہوکر فتنہ میں واقع ہوسکتاہے ۔لہٰذا جس طرح ،نیند کو خروج ریح کے قائم مقام قرار دے کر وضو ٹوٹنے کاحکم لگادیا جاتاہے خواہ ہوا خارج ہو یا نہ ہو۔اور خلوت صحیحہ(۴۱)میں وطی نہ پائی گئی ہو؛ مگر اس خلوت کو وطی کے قائم مقام کرکے احکام جاری کیے جاتے ہیں(۴۲)اسی طرح عورت کی طرف نظر کرنے سے انسان فتنہ میں پڑ سکتاہے، لہٰذا اجنبیہ کی طرف نظر کرنا ایساہی ہے جیسے کوئی شخص فتنہ میں واقع ہوجائے ۔

حنفیہ کاموقف:

حنفیہ کے نزدیک بلاشہوت اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کی طرف نظرکرنا جائز ہے ۔

امام ابو بکرجصاص (م۳۷۰ھ)لکھتے ہیں:

جاز للأجنبی أن ینظر من المرأة إلی وجہہا ویدیھا بغیر شھوة(۴۳)

”اجنبی کے لیے جائز ہے کہ وہ بغیرشہوت کے عورت کے چہرہ اورہتھیلیوں کی طرف دیکھے“۔

امام کاسانی لکھتے ہیں:

فلا یحل النظر للأجنبی من الأجنبیة الحرة إلی سائر بدنھا إلا الوجہ والکفین(۴۴)

”اجنبی کے لیے آزاد جنبیہ کے چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی بدن کی طرف نظر کرنا حلال نہیں ہے“۔

صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی (م۵۹۳ھ )لکھتے ہیں:

ولا یجوز أن ینظر الرجل إلی الأجنبیة إلا وجہہا وکفیھا(۴۵)

”اور آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے سوائے چہرہ اور ہتھیلی کے“۔

حنفیہ کے دلائل:

۱-ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ(۴۶)

”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں“۔

اس آیت میں مردوں کو غض بصر کاحکم دیا گیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ اجنبیہ کی طرف بالکل دیکھنا جائز نہیں؛مگر حنفیہ نے سورة النور کی درج ذیل آیت کی وجہ سے چہرے اورہتھیلیوں کا استثناکیاہے۔

وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا(۴۷)

”اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں؛ مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے“۔

حضرت عبداللہ بن عباس نے ”اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا“کی تفسیر سرمہ اور انگوٹھی سے کی ہے(۴۸)۔ سرمہ چونکہ آنکھ میں ڈالا جاتاہے اور انگوٹھی ہاتھ میں ہوتی ہے؛لہٰذا زینت ظاہر ہ سے مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے ۔اور حضرت ابن عبا س سے دوسری روایت بھی ہے جس میں آپ نے ”اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا“کی تفسیر ہتھیلی اور چہرہ سے کی ہے(۴۹)۔ چہرہ اورہتھیلیوں کے علاوہ باقی اعضاء اسی نہی کے حکم میں داخل ہیں(۵۰)۔چنانچہ اجنبی مرد کے لیے اجنبیہ کے چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی جسم کی طرف نظر کرنا حلال نہیں؛لیکن اگر عورت کی طرف نظر کرنے میں شہوت کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کے چہرے کو دیکھنا حلال نہ ہوگا ۔

امام شمس الائمہ سرخسی (م۴۸۳ھ)اس مسئلہ پر بڑی تفصیلی بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وھذا کلہ إذا لم یکن النظر عن شھوة فإن کان یعلم أنہ إن نظر اشتھی لم یحل لہ النظر إلی شیء منھا․․․․․ وکذلک إن کان أکبر رأیہ أنہ إن نظر اشتھی لأن أکبر الرأی فیما لا یتوقف علی حقیقتہ کالیقین(۵۱)

”اور یہ ساری تفصیل اس وقت ہے جب مرد کی وہ نظر شہوت سے نہ ہو؛لیکن اگر وہ یہ جانتا ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف رغبت پیدا ہوجائے گی تو ایسی صورت میں اس مرد کے لیے عورت کے کسی عضو کو بھی دیکھنا حلال نہ ہوگا ۔یہی حکم اس صورت میں ہے جب مرد کی غالب رائے یہ ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف میلان ہوجائے گا؛کیونکہ جس چیز کی حقیقت پر مطلع نہ ہوسکتے ہوں ،اس کے اندر غالب رائے یقین کا درجہ رکھتی ہے“۔

امام کاسانی لکھتے ہیں :

إنما یحل النظر إلی مواضع الزینة الظاھرة منھا من غیر شھوة فأما عن شھوة فلا یحل لقولہ علیہ الصلاة والسلام اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ(۵۲) ولیس زنا العینین إلا النظر عن شھوة ولأن النظر عن شھوة سبب الوقوع فی الحرام فیکون حراما إلا فی حالة الضرورة(۵۳)

”بے شک زینت ظاہرہ کی جگہوں کی طرف نظر اس وقت حلال ہے جب وہ بغیر شہوت کے ہو اور اگر وہ نظر شہوت سے ہو تو پھر حلال نہ ہوگی ،اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آنکھیں زنا کرتی ہیں“اور آنکھوں کا زناشہوت والی نظرسے ہوتا ہے ۔اور شہوت بھری نظر حرام میں واقع ہونے کاسبب ہے، لہٰذا وہ حرام ہوگی سوائے مجبوری کی حالت میں ۔

۲-نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من نَظرَ إِلَی محَاسِن امْرَأَة أَجْنَبِیَّة عَن شَھْوَة صُبَّ فِی عَیْنَیْہِ الآنک یَوْمَ القِیَامَةِ(۵۴)

”جس شخص نے شہوت کے ساتھ کسی اجنبی عورت کے محاسن کی طرف نظرکی تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں سیسہ ڈالا جائے گا“۔

مذکورہ بالا دلائل کی بناء پر حنفیہ کے نزدیک فتنہ اورشہوت کاخوف نہ ہونے کی صورت میں عورت کے چہرہ کی طرف نظر کی جاسکتی ہے ۔اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کا چہرہ دیکھنا منع ہوگا اس لیے کہ عورت کی اصل خوبصورتی تو اس کے چہرہ میں ہوتی ہے ۔

امام سرخسی لکھتے ہیں:

ولأن حرمة النظر لخوف الفتنة وعامة محاسنھا فی وجہہا فخوف الفتنة فی النظر إلی وجہہا أکثر منہ إلی سائر الأعضاء(۵۵)

”اوربے شک دیکھنے کی حرمت فتنہ کے خوف کی وجہ سے ہے اور عورت کے اکثر محاسن اس کے چہرے ہی میں ہوتے ہیں؛اس لیے دوسرے اعضاء کی طرف دیکھنے کے مقابلے میں چہرہ کی طرف دیکھنے میں فتنہ کا خوف زیادہ ہے “۔

اور اگر فتنہ کاخوف نہیں ہے تو پھر عورت کی طرف دیکھنا بھی حرام نہیں ہے؛مگر چونکہ اس زمانے میں بے راہ روی اور عریانی وفحاشی کاسیلاب نہایت تیزی کے ساتھ بڑھتاجارہاہے اور اس شرط کا فی زمانہ پایا جانا مشکل ہے؛ اس لیے متاخرین حنفیہ(۵۶)نے مطلقاً عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے سے منع کیاہے ۔

علامہ حصکفی لکھتے ہیں:

فإن خاف الشھوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا فحل النظر مقید بعدم الشھوة وإلا فحرام وھذا فی زمانھم وأما فی زماننا فمنع من الشابة قھستانی وغیرہ إلا النظر لحاجة کقاض وشاھد یحکم ویشھد علیھا(۵۷)

”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے ۔پس نظر کاحلال ہو نا مقید ہے شہوت نہ ہونے کے ساتھ وگرنہ حرام ہے۔ یہ حکم ان پہلے فقہاء کے زمانے کا ہے۔اور جہاں تک ہمارے اس دور کاتعلق ہے،اس میں تو نوجوان عورت کی طرف نظر کرنا ممنوع قرار دیاگیاہے ۔قہستانی وغیرہ؛البتہ ضرورت کے وقت، دیکھنا جائز ہے، مثلا قاضی کا فیصلہ سناتے وقت دیکھنایا گواہ کا عورت کے خلاف گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔

مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مرد کے لیے عورت کی طرف بلاضرورت دیکھنانا جائز نہیں،اور متقدمین حنفیہ کے نزدیک فتنہ سے مامون ہونے کی صورت میں مرد کے لیے عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے؛ مگر چونکہ اب وہ حالات نہیں رہے ،عریانی اورفحاشی بڑھتی جارہی ہے؛ اس لیے متاخرین حنفیہ کے نزدیک بلاضرورت مر د کا اجنبی عورت کی طرف دیکھناجائز نہیں ہے؛چنانچہ اب یہ کہا جاسکتاہے کہ اب جمہور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرد کے لیے بلاضرورت عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے ۔

$$$

حواشی وحوالہ جات:

(۱) القرآن، النو:۳۰۔

(۲)القرآن، النور۳۱۔

(۳)القرآن،آل عمران:۱۴۔

(۴)البخاری ،محمد بن اسماعیل ا، الجامع الصحیح ،بیروت ،دار ابن کثیر الیمامہ ،۱۴۰۷ھ، جلد۵ ، صفحہ۲۳۰۴۔

(۵)مسلم بن حجاج،امام ،الصحیح ،بیروت ،داراحیاء التراث العربی، جلد۴،صفحہ ۱۷۰۴۲۳۰۴۔

(۶)المنذری،عبدالعظیم،الترغیب والترھیب،بیروت ،دارالکتب العلمیہ،۱۴۱۷ھ ،جلد۳،صفحہ۱۵۳۔

(۷)ابن قیم الجوزیہ،الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی،دارالمعرفت،۱۴۱۸ھ،جلد۱،صفحہ۱۵۳-۱۵۴۔

(۸)عبداللہ بن محمود الموصلی الحنفی ،الاختیار لتعلیل المختار،قاہرہ،مطبعہ الحلبی،۱۳۵۶ھ،جلد۴،صفحہ۱۵۴۔

     الغزالی،محمد بن محمد،ابوحامد،الوسیط فی المذھب،قاہرہ، دارالسلام،۱۴۱۷ھ،جلد۵،صفحہ۲۹۔

(۹)شامی ابن عابدین ،محمدامین ،رد المحتار(حاشیہ ابن عابدین)بیروت ،دارلفکرللطباعةوالنشر،جلد۶،صفحہ۳۷۱۔

(۱۰)برہان الدین محمود بن احمد،المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی،بیروت،دارلکتب العلمیہ،۱۴۲۴ھ،جلد۵،صفحہ۳۳۱-۳۳۲، ابن قدامہ ،عبداللہ بن احمد،المغنی،مکتبة القاہرہ،۱۳۸۸ھ،جلد۷،صفحہ۹۸-۱۰۰، الخطیب الشربینی،محمدبن احمد الشافعی، مغنی المحتاج الی معرفة معانی الفاظ المنہاج،بیروت،دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ، جلد۴،صفحہ۲۱۴،۲۱۷۔الغزالی،الوسیط فی المذھب،جلد۵،صفحہ۳۱-۳۲، ابن جزی کلبی،محمد بن احمد،القوانین الفقیہ،ناشر نامعلوم،س ن،جلداول،صفحہ۲۹۴، محمدبن محمدالطرابلسی،المالکی،مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،بیروت،دارالفکر،۱۴۱۲ھ،جلد۳،صفحہ۴۰۶۔

(۱۱)الکاسانی ،علاو الدین ،البدائع والصنائع فی ترتیب الشرائع،بیروت ،دارالکتاب العربی،۱۹۸۲/،جلد۵،صفحہ۱۲۲، ابن قدامہ،المغنی،جلد۷،صفحہ۹۶، الطرابلسی،المالکی،مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،جلد۳،صفحہ۴۰۵، الشیرازی، ابراہیم بن علی، ابو اسحاق ،المہذب فی فقہ الامام الشافعی ،بیروت ،دارالکتب العلمیہ ،س ن ،جلد۲،صفحہ۴۲۴۔

(۱۲)لنووی ،شرح صحیح مسلم ،جلد۹،صفحہ۲۱۰۔

(۱۳)رازی،محمد بن عمر بن حسین ،ابو عبداللہ ،تفسیر الفخرالرازی ،بیروت ،داراحیاء التراث العربی ،۱۴۲۰ھ،جلد۲۳،صفحہ۳۶۲، الطرابلسی،المالکی،مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،جلد۳،صفحہ۴۰۵، حصکفی ،علاوالدین ،درمختار ،بیروت، دارالفکر، ۱۳۸۶ھ،جلد۶،صفحہ۳۷۰، ابن قدامہ،المغنی،جلد۷،صفحہ۱۰۱۔

(۱۴)حصکفی،الدرالمختار،جلد۶،صفحہ۳۷۰،الطرابلسی،المالکی،مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،جلد۳،صفحہ۴۰۵، الشیرازی، ابو اسحاق ، المھذب ،جلد۲،صفحہ۴۲۵،ابن قدامہ،المغنی،جلد۷،صفحہ۱۰۱۔

(۱۵)رازی ،تفسیر الفخرالرازی ،،جلد۲۳،صفحہ۳۶۲۔

(۱۶)الکاسانی،البدائع والصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۲۔

(۱۷)النووی ،شرح صحیح مسلم ،جلد۹،صفحہ۲۱۰۔

(۱۸)درویش مصطفی حسن،فصل الخطاب فی مسئلة الحجاب والنقاب،قاہرہ ،دارالاعتصام،س ن،صفحہ ۷۳۔

(۱۹)ایضا ،صفحہ ۷۳۔

(۲۰)شامی،ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد۱،صفحہ۴۰۷۔

(۲۱)شامی،ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد۱،صفحہ۴۰۶۔

(۲۲)شامی،ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد۱،صفحہ۴۰۷۔

(۲۳)ابن رشد الجد،محمدبن احمد،المقدمات المھدات،بیروت ،دارالغرب الاسلامی،۱۴۰۸ھ،جلد۳،صفحہ۴۶۰۔

(۲۴)ابن عربی،محمدبن عبداللہ ،احکام القرآن،بیروت،دارالکتب العلمیہ،۱۴۲۴ھ،جلد۳،صفحہ۳۸۰۔

(۲۵)الشیرازی،ابو اسحاق ،المھذب ،جلد۲،صفحہ۴۲۵۔

(۲۶)الغزالی،الوسیط فی المذھب،جلد۵،صفحہ۳۲۔

(۲۷)ابن قدامہ،المغنی،جلد۷،صفحہ۱۰۲۔

(۲۸)القرآن ،النور:۳۰، الشیرازی،ابو اسحاق ،المھذب ،جلد۲،صفحہ۴۲۵، ابن عربی،احکام القرآن ،جلد۳،صفحہ۳۷۹، ابن رشد،البیان والتحصیل،جلد۱۸،صفحہ۵۵۹۔

(۲۹)الشافعی،محمد بن ادریس ،تفسیر الامام الشافعی،المملکة العربیہ السعودیہ،دارالتدمریة،۱۴۲۷ھ،جلد۳،صفحہ۱۱۳۷۔

(۳۰)القرآن،الاحزاب:

     ابن قدامہ،عبداللہ بن احمد،ابو محمد،المغنی،مکتبة القاہرہ،۱۳۸۸ھ،جلد۷،صفحہ۱۰۲۔

(۳۱)القرطبی،محمد بن احمد بن ابی بکر،الجامع لاحکام القرآن،قاہرہ،دارالکتب المصریہ،۱۳۸۴ھ،جلد۱۴،صفحہ۲۲۷۔

(۳۲)ابن عربی،احکام القرآن، جلد۳،صفحہ۳۸۰؛ مسلم ،الصحیح،جلد۴،صفحہ۲۰۴۷۔

(۳۳)ابن قدامہ،المغنی، جلد۷،صفحہ۱۰۲؛ ابن عربی،احکام القرآن،جلد۳،صفحہ۳۸۰؛ ابوداؤد،جلد۲،صفحہ۲۴۶؛ ابن ابی شیبہ، عبداللہ بن محمد،الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار،ریاض،مکتبة الرشید،۱۴۰۹ھ،جلد۶،صفحہ۳۶۷۔

(۳۴)الشیرازی،ابو اسحاق ،المھذب ،جلد۲،صفحہ۴۲۵؛ ابن رشد،البیان والتحصیل،جلد۱۸،صفحہ۵۵۹؛ ابن قدامہ، المغنی، جلد۷،صفحہ۱۰۲؛ الترمذی ،ابوعیسی محمد بن عیسی،السنن،مصر،مطبع مصطفی البابی الحلبی،۱۳۹۵ھ، جلد۳،صفحہ۲۲۳؛ احمد بن حنبل، المسند،بیروت،موسسہ الرسالة،۱۴۲۱ھ،جلد۲،صفحہ۶۔

(۳۵)ابن قدامہ،المغنی،جلد۷،صفحہ۱۰۲؛ مسلم، جلد۳، صفحہ۱۶۹۹۔

(۳۶)ابو داؤد،السجستانی ،سلیمان بن اشعث ،بیروت، المکتبہ العصریہ ،جلد۲،صفحہ۲۲۸۔

     ابن ماجہ ،محمد بن یزید ،دار احیاء الکتب العربیہ ،جلد۱،صفحہ۶۰۰۔

(۳۷)ابن قدامہ،المغنی،جلد۷،صفحہ۱۰۲۔

(۳۸)الوسیط فی المذھب،جلد۵،صفحہ۳۲۔

(۳۹)مفتی صاحب کا ”سائرالاحکام“ لکھنا ”تسامح“ہے؛ اس لیے کہ خلوت صحیحہ تمام احکام میں وطی کے قائم مقام نہیں ہے؛بلکہ بعض احکا م میں ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

(۴۰)مفتی محمدشفیع دیوبندی ،احکام القرآن،جلد۳،صفحہ۴۶۸۔

(۴۱)خلوت صحیحہ سے مرادنکاح کے بعد مرد وعورت کی ایسی تنہائی کی ملاقات ہے، جہاں پر وطی سے کوئی حسی ،شرعی اور طبعی مانع نہ ہو، حسی سے مراد وہاں پر کوئی اور ان کے علاوہ موجود نہ ہواور شرعی سے مراد عور ت ماہواری کے ایام میں نہ ہو یا فرض روزہ نہ رکھا ہو ،اور طبعی سے مراد مردوعورت دونوں میں سے کسی کو ایسی بیماری نہ ہو جو وطی کرنے سے مانع ہویا ضرر کااندیشہ ہو،جس خلوت میں یہ رکاوٹیں موجود نہ ہوں، وہ خلوت صحیحہ کہلاتی ہے ۔ فتاوی ہندیہ المعروف عالمگیریہ میں یہی تعریف کی گئی ہے: والخلوة الصحیحة أن یجتمعا فی مکان لیس ہناک مانع یمنعہ من الوطء حسا أو شرعا أو طبعا (فتاوی ہندیہ ،بیروت،دارالفکر،۱۴۱۱ھ،جلداول ،صفحہ۳۰۴)

(۴۲)ایسی خلوت صحیحہ جس میں مرد نے عورت سے وطی نہ کی تو اس عورت پر بعض احکام وہ لاگو ہونگے جو ایسی عورت پر لاگوہوتے ہیں جس کے ساتھ خلوت صحیحہ میں وطی ہوچکی ہو ،فتاوی ہندیہ میں ہے: وأصحابناأقاموا الخلوة الصحیحة مقام الوطء فی حق بعض الاحکام دون البعض فاقاموہا مقامہ فی حق تاکد المہر وثبوت النسب والعدة والنفقة والسکنی فی ہذہ العدة وحرمة نکاح اختہاواربع سواہا (جلداول ،صفحہ۳۰۶)ہمارے اصحاب نے کہا خلوت صحیحہ (جس میں وطی نہ ہوئی ہو )بعض احکام میں وطی کے قائم مقام ہے اور بعض میں نہیں ہے ۔پس وہ وطی کے قائم مقام ہے مہرکے لازم ہونے میں ،ثبوت نسب میں ،اور عدت میں ،اور دوران عدت نفقہ اور سکنی کی مستحق ہونے میں ،اور عدت کے دوران اس کی بہن سے نکاح کے حرام ہونے میں ،اور اس کی عدت میں مزید چار عورتوں کے ساتھ نکاح کی حرمت میں۔ اور خلوت صحیحہ بعض احکام میں وطی کے قائم مقام نہیں ہے۔ مثلا وطی کے بعد غسل فرض ہوتاہے؛ مگر ایسی خلوت جس میں وطی نہ ہو اس کے بعد غسل فرض نہیں ہوگا ،اور ایسی خلوت کے بعد اگر طلاق ہوگئی تو وہ زوج اول کے لیے حلا ل نہیں ہوگی ،مرد یا عورت محصن نہ ہونگے،رجعت کا حق نہ ہوگا ،وغیرہ اور بھی مسائل ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔(فتاوی ہندیہ ،جلداول ،صفحہ۳۰۶ )حالانکہ جب اس عورت کے ساتھ وطی نہیں کی گئی تو اس پر یہ احکام لاگو نہیں ہونے چاہئیں؛ مگر فقہاء نے خلوت صحیحہ کو وطی کے قائم مقام کرکے وہی احکام جاری کیے ہیں ۔ائمہ ثلاثہ کہتے ہیں اسی طرح بدنظری چونکہ عورت کی طرف میلان اور وقوع فتنہ کا سبب ہے؛ اس لیے یہ فتنہ کے قائم مقام ہے اورحرام ہے ۔

(۴۳)الجصاص،ابو بکر،احکام القرآن،بیروت،دارالکتب العلمیہ ،۱۴۱۵ھ ،جلد۵،صفحہ۱۷۳۔

(۴۴)کاسانی،بدائع الصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۲۔

(۴۵)المرغینانی ،علی بن ابی بکر ، الہدایہ فی شرح بدایة المبتدی،بیروت،داراحیاء التراث العربی،س ن ،جلد۴،صفحہ۳۶۸۔

(۴۶)القرآن،النور:۳۰۔

(۴۷)القرآن، النور:۳۱۔

(۴۸)الطبری ،محمد بن جریر ،جامع البیان فی تاویل القرآن،ھ،بیروت،موسسة الرسالہ،۱۴۲۰ھ،جلد۱۹،صفحہ۱۵۶۔

(۴۹)ابن ابی شیبہ،ا المصنف ،جلد۳،صفحہ۵۴۶۔

(۵۰)کاسانی،بدائع الصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۱، ۱۲۲۔

(۵۱)السرخسی ،محمد بن ابی سھل ،المبسوط،بیروت ،دارالمعرفت،۱۴۱۴ھ ،جلد۱۰،صفحہ۱۵۳۔

(۵۲)ابو بکراحمد بن عمروالبزار،مسند البزارالمنشور باسم البحرالزخار،المدینة المنورة ،المکتبة العلوم والحکم،۱۹۸۸/، جلد۵، صفحہ۳۳۲۔

(۵۳)کاسانی،بدائع الصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۲۔

(۵۴)السرخسی ،المبسوط،جلد۱۰،صفحہ۱۵۳؛ المرغینانی ،الہدایہ ،جلد۴،صفحہ ۳۶۸۔

(۵۵)السرخسی ، ،المبسوط،جلد۱۰،صفحہ۱۵۲۔

(۵۶)متقدمین سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف اور امام محمد کا زمانہ پایا ،اور ان سے فیض حاصل کیا اورجنہوں نے ان ائمہ ثلاثہ کا زمانہ نہیں پایا وہ متاخرین کہلاتے ہیں ۔علامہ ذہبی نے میزان میں ،متقدمین اورمتاخرین کے درمیان حدفاصل تیسری صدی کا شروع قرار دیا ہے ۔تیسری صدی ہجری سے پہلے تک کہ علماء متقدمین اور تیسری صدی کے آغاز سے متاخرین کہلاتے ہیں ۔(مشتاق علی شاہ،تعارف فقہ،گوجرانوالہ،مکتبہ حنفیہ،س ن ،صفحہ۶۳)

(۵۷)حصکفی،الدرالمختار،جلد۶،صفحہ۳۷۰۔

$ $ $

 

------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 99 ‏، رجب 1436 ہجری مطابق مئی 2015ء